FAMOUS URDU NOVELS: Kamal e mohabbat by Maryam Gul

HERE YOU CAN SEARCH FOR THE NOVELS LINKS

Monday, March 13, 2017

Kamal e mohabbat by Maryam Gul




Kamal e mohabbat by Maryam Gul




مئی کے اوائل کے دن تھے.سورج کی تپش سوا نیزے پر تھی۔عامل بابا کے ڈیرے پہ جہاں ہر وقت آس مندوں اور مریدوں کا تانتا بندھا رہتا تھا.وہاں آج اکا دْکا لوگ نظرآ رہے تھے.عامل بابا کا خاص خدمت گزا ر شیدا مٹی کے کونڈے میں ہرے رنگ کی بھنگ رگڑ رہا تھا..مریدوں کا رش کم ہوتے ہوتے بالکل ختم ہو گیا۔
عامل بابا سستانے کا بول کے آستانے میں موجود چھوٹے کمرے کی طرف چلے گئے۔ شیدا عامل بابا کے لئے ٹھنذی بھنگ لے آیا.جسے ہونٹوں سے لگا کے عامل بابا نے تب ہی چھوڑا جب وہ بالکل ختم ہو چکی۔عامل بابا کی آنکھیں لال ہونے لگی. عامل بابا ابھی لیٹے ہی تھے.کہ غفورا آستانے کے احاطے میں داخل ہو تا نظر آیا۔
شیدے نے کہا ۔"بعد وچ آں بابے ہوری آرام پے کردے نیں."
عامل بابا نے آواز لگائی:" آن دے شیدے۔۔۔"ہاتھ کے اشارے سے عامل بابا نے غفورکو پاس بلایا.اور کہا:
 "بول کیوں آیا ایں؟"
غفورے (ْغفو ر) نے عامل باباکے دونوں ہاتھ تھام لئے.
"بابا جی او مینوں چھڈ کے کسے ہور نال ویاہ کرن لگی اے۔او کہندی اے توْ پڑھیا لکھیا ئیں۔نا کوئی کم کردا ایں.بابا جی میں کم نیں کردا۔اس د ا مطبل
(مطلب)کہ میں انج ای رہنا.میں کدے کم نیں کرنا.؟ پیار میرے نال تے ویاہ ہور کسے نال۔
باباجی تْسی کوئی عمل کرو نا او میرے کول آجاوے..ٖ"غفورے کے ہاتھوں کی گرفت عامل بابا کے ہاتھوں پر اوربھی سخت ہو گئی. بابا نے آنکھیں بند کر لی۔جب آنکھیں کھولی وہ لال انگاروں جیسی ہو رہی تھی.
عامل بابا:" تیرا کام ہو جائے گا."
غفورے کی آنکھیں چمکنے لگی.
"تْو3000 روپیہ لے کے آ کل ۔.عمل کرناں کچھ سامان چاہی دا۔"3000 روپیہ" ...........غفورے کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا."میں انے پیسے کتھوں لے کے آوں؟؟میں دسیا وی اے۔ میں کوئی کم نیں کردا."
عامل بابانے ٹکا کے جواب دیا".پیسے نیں تے جا۔تیرا کم نییں ہوسکدا."
غفورے نے منت کی.عامل بابا نے آنکھیں بند کر کے اْوپر بازو رکھ لیا.یہ اس بات کا اعلان تھا.کہ مزید بات نہیں  کریں گے.غفورا کچھ دیر کھٹرا دیکھتا رہا.اورپھر آستانے کے ا حاطے سے با ہر نکل آیا.
.گھر واپس آ تے ہی کمرے میں گھس گیا. چارپائی پہ چت لیٹ کے کمرے کی چھت گورتا رہا.طرح .طرح کے خیال ستا تے رہے.اْسے کسی اور کے ساتھ سوچ کے ہی اْس کا خون کھولنے لگ جاتا. پتا نہیں کب اْس کی آ نکھ لگ گئی. شام کے قریب جا کے کہیں جاگ آئی.منہ ہاتھ دھو کے اپنے جگری یار ولی کے گھر چلا گیا۔ولی کو لے کے غفورامیدان میں آ گیا اور غفور نے ساری بات ولی کو بتائی کہ وہ کیوں پر یشان ہے..عامل باباساتھ ہونے والی ساری باتیں بھی تفصیل سے ولی کو بتادی..تمام باتیں سن کے و لی کچھ دیر کے لئے خاموش ہوگیا..
بولا :"بس ا تنی سی بات ۔یارپیسے خرچن دی کی لور اے۔کجھ انج کر کے او تیر ی نیں تے کسے ہور دی وی نا ہو سکے۔"
غفورہونکوں کی طرح ولی کی طرف دیکھنے لگا.
"یار انج کداں ہوے گا.اْس دے کار (گھر)والیاں نے تاریخ ڈال دتی اے.او۔ وی ماں دی اڈھی چٹرھ گئی اے.کہندی اے توْ نکماں ا یں.تے نکماں ای رہنا.
ولی یار میرا دل کردا. او ہنوں لے کے نس جاواں.یار او گل کرے تے میں اوہنوں سمجھواں.توْ دس ولی میں کی کراں یار؟ "
ولی:"او روز سکولے(سکول) جاندی اے نا۔تے .کل گل کر لیندے آں۔توْ میرا ویر پریشان نا ہو.کل ہون دے سبھ سیٹ ہو جاوے گا."
 غفورا مطمن سا ہو گیا.کہ ولی نے سوچیا اے تے کجھ نا کجھ تے ہو ای جاوے گا.
اگلے دن دونوں گلی کی نکٹرپہ کھٹرے اْس کا انتظار کر نے لگے۔.گرمیوں کے دن تھے.گلیاں محلے سنسان پڑے تھے.وہ سکول سے نکلی گھر کے لئے،اس بات سے انجان کے آگے ولی اور غفور دھاک لگائے بیٹھے ہیں۔وہ گلی میں داخل ہوئی تو غفورکو دیکھ کے ٹھٹک گئی۔سوچنے لگی چپ چاپ گزر جائے گی.جیسے ہی غفورکے پا س سے گزری غفورنے آگے ہوکے راستہ روک لیا۔ہاجرہ نے غصے بھری نظروں سے غفور کی طرف دیکھا.
"چھوڑ میری راہ غفورے۔ "غفور ڈٹ کر کھٹرا رہا.
 ہاجرہ نے منت کی ۔"چھوڑ دے کوئی دیکھ لے گا.۔"
غفور نے ہاجرہ کا ہاتھ پکڑ لیا. ہاجرہ نے زور دار تھپڑ  غفور کے منہ پر دے مارا.ہ غضے سے غفورکا چہرہ لال ہو گیا.اور ہاجرہ کا ہاتھ پر اْس کی گرفت اور بھی مضبوط ہو گئی..ہاجرہ منت کرتی ہاتھ چھڑانے کی کو شش میں تھی کہ ولی نے آگے بڑھ کے تیزاب سے بھری بوتل ہاجرہ کے منہ پر اْنڈل دی.درد سے وہ بلک اْٹھی.غفور ے نے دھکا دے کر اْسے زمین پرگرا دیا اور ولی کا ہاتھ پکٹر ے بھاگتا بھاگتا گاوؤن کی گلیوں میں کہیں گم ہو گیا۔۔۔۔


ختم شد







No comments:

Post a Comment

LinkWithin

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...