FAMOUS URDU NOVELS: Khofnak churhail by Chota Nawab

HERE YOU CAN SEARCH FOR THE NOVELS LINKS

Monday, August 7, 2017

Khofnak churhail by Chota Nawab





Khofnak churhail by Chota Nawab


آج بیٹھے بیٹھے بچپن کی ایک بات یاد آ گئی۔ جب میں 5th کلاس میں تھا اور میرے ساتھ محلے کا ہی ایک لڑکا جو میری کلاس میں میرے ساتھ ہی پڑھتا تھا اچھا دوست بھی تھا میرا۔ ہم ٹیوشن کے لیئے دوسرے گاؤں جاتے تھے سائیکل پر ،جو کہ 40 منٹ کا سفر تھا اور راستے میں کھیت اور گھنے درخت بھی بہت آتے تھے اور ہم نے گاؤں والوں سے سن رکھا تھا کہ فلاں درخت پر ایک چڑیل رہتی ہے اور بچوں کا خون چوستی ہے اس لئے ہم ٹیوشن سے جلدی ہی مغرب کی اذان سے پہلے پہلے واپس آنے کی کوشش کرتے تھے۔
ایک دن ہم ٹیوشن سے لیٹ ہو گئے اور ہمارے استاد نے اس وقت تک ہم کو چھٹی نہیں دی جب تک ہم نے سبق یاد کر کے سنا نہ دیا۔ دسمبر کا مہینہ تھا اور سردی اپنے عروج پر تھی رات کافی ہو گئی تھی ٹیوشن سے واپسی پر سائیکل میں ہی چلاتا تھا اور وہ میرا دوست سائیکل کے آگے بیٹھتا تھا ۔پیچھے کیریل پر ہم اپنے بستے اور کتابیں رکھتے تھے۔
میں سائیکل چلا رہا تھا جب ہم ان گھنے درختوں کے پاس پہنچ گئے تو سائیکل بہت سلو ہو گیا میں نے بہت زور سے پیڈل بھی مارے پر سائیکل چلنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ میں نے اپنے دوست کو کہا۔
یار لگتا ہے اس چڑیل نے ہماری سائیکل کو پکڑ لیا ہے میں بہت زور لگا رہا ہوں یہ چل ہی نہیں رہا ۔"اس نے جب یہ سنا تو چیخنا شروع کر دیا ڈر تو میں بھی گیا تھا اور وہ دوست اونچی آواز میں بول رہا تھا۔
چڑیل باجی ہمیں جانے دو میں صبح آپکو بکری کا بچہ لا دونگا آپ اس کا خون پی لینا میں آپ کے اس درخت کے نیچے باندھ جاؤں گا چڑیل باجی ہمیں چھوڑ دو ۔"میری تو ڈر کی وجہ سے آواز بھی نہیں نکل رہی تھی اوپر سے کالی رات اور آوازیں بھی عجیب سی آنے لگی تھیں اور ہمارا سائیکل رک ہی گیا اور وہ میرے دوست نے اور زیادہ چیخنا شروع کر دیا تھا میں نے جب سائیکل کو دیکھا تو اس سائیکل کے پچھلے ٹائیر میں میری چادر پھنسی ہوئی تھی جو سردی کی وجہ سے میں نے اپنے اوپر اوڑھ رکھی تھی اس نے آنکھوں سے آنسو صاف کیے اور بولا۔
یار جلدی سے اس کو نکالو یہ بھی اس چڑیل کی چال ہے۔" پھر ہم نے اس گرم چادر کو نکالنے کی بہت کوشش کی پر وہ چادر نہیں نکلی ڈر ہم دونوں کو ہی بہت زیادہ لگ رہا تھا میں بولا۔
آپ سائیکل کو آگے سے پکڑو میں پیچھے سے پکڑتا ہوں اور یہاں سے بھاگتے ہیں۔"اس کو میری یہ بات پسند آئی اس نے سائیکل کو آگے سے پکڑا اور میں نے پیچھے سے پکڑا اور سائیکل اٹھا کر بھاگنا شروع کر دیا۔
15 
منٹ ہم ایسے ہی بھاگتے رہے جب گاؤں میں داخل ہوئے تو سکون کا سانس لیا اور گھر والے جو ہماری راہ دیکھ رہے تھے لیٹ آنے کی وجہ پوچھنے لگے اور ہم نے ساری بات بتا دی ہماری بات سن کر ہمارے گھر والوں کو ہنسی روکنا مشکل ہو گیا اور ہم حیران تھے کہ ان کو خوش ہونا چاہئے کہ ہماری جان بچ گئی پر یہ ہم پر ہی ہنس رہے ہیں مگر انھوں نے ہمیں ہنسنے کی وجہ نہیں بتائی اس کے بعد گھر والوں نے ہمارے استاد کو بول دیا تھا کہ ان کو مغرب کی اذان سے پہلے پہلے چھٹی دے دیا کرو ۔

٭٭٭٭٭٭٭

چھوٹانواب




No comments:

Post a Comment

LinkWithin

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...